ورلڈ ٹی 20 مذاق بن گیا،ڈائریکٹرز وفنکار کون،اگلا ممکنہ نقصان
تبصرہ :عمران عثمانی
یہ سال ورلڈ ٹی 20 کا ہے،ایونٹ پہلے ہی ایک سال تاخیر کا شکار ہوچکا ہے،ایونٹ گزشتہ سال ہونا تھا لیکن کورونا کی وجہ سے یہ ایک سال کے لئے ملتوی ہوگیا تھا جو اس سال کھیلا جارہا ہے اور گزشتہ سال کا ملتوی شدہ ایڈیشن اگلے سال آسٹریلیا میں ہوگا،اس طرح آسان لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ورلڈ ٹی 20 کے اوپر تلے 2 ایڈیشن 14 ماہ میں ہونے ہیں،ان میں سے پہلے ایونٹ کا وقت قریب ہے،نیوزی لینڈ پہلا ملک بنا ہے جس نے اپنے 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کردیا ہے.
ورلڈ ٹی 20 کپ کی مختصر تاریخ
کرکٹ پنڈتوں نے ورلڈ ٹی 20 کا آغاز 2007 سے کیا تھا جب پہلا ورلڈ کپ ٹی 20 ایونٹ 2007 میں جنوبی افریقا میں ہوا تھا،بھارت پاکستان کو ہراکر ٹی 20 کا چیمپئن بنا تھا،ایک تو فارمیٹ نیا تھا اور دوسرا روایتی حریفوں کے فائنل نے دنیا بھر کی توجہ پالی تھی. دوسرا ورلڈ ٹی 20 کپ 2009 میں انگلینڈ میں ہوا تھا،پاکستان چیمپئن بنا تھا.تیسرا ورلڈ ٹی کپ اس سےا گلے سال 2010 میں ویسٹ انڈیز میں ہوا جو انگلینڈ نے جیت لیا تھا.2012 کا ورلڈ ٹی 20 سری لنکا کی قسمت میں آیا اور 2014 کے ساتھ ساتھ 2016 کے 2 ورلڈ ٹی 20 کپ اوپر تلے ویسٹ انڈیز نے جیتے،اس طرح ویسٹ انڈیز 2 بار جیتنے والا پہلا ملک بنا ہے،یاد رہے کہ 50اوورز کا ورلڈ کپ جب شروع ہوا تھا تو ویسٹ انڈیز نے ہی پہلے 2 ایڈیشن جیتے تھے اور اس کے بعد کبھی چیمپئن نہیں بن سکا .پاکستان،بھارت،سری لنکا اور انگلینڈ ایک ایک بار چیمپئن بن چکے ہیں.6 بار ہونے والے ورلڈ ٹی 20 کے لئے قسمت نے آسٹریلیا،نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقا کی کوئی مدد نہیں کی ہے اور وہ تاحال محروم ہیں.
ورلڈ ٹی 20 کے لئے آئی سی سی کا کردار
ورلڈ کپ ہو،چیمپئنز ٹرافی ہو اور یا پھر ورلڈ ٹی 20 کپ،یہ کرکٹ گلوبل باڈی آئی سی سی کے ایونٹس ہیں ،اس کی آمدنی تمام رکن ممالک میں تقسیم کی جاتی ہے لیکن آپ اندازا کرلیں کہ یہ ایونٹ اب 5 برس بعد ہورہا ہے اور اس کے لئے کون کتنا سنجیدہ ہے.آئی سی سی نے اس کی میزبانی بھارت کو دی تھی،کوروناکی وجہ سے ایونٹ متحدہ عرب امارات منتقل ہوچکا ہے اور اب عمان بھی ابتدائی میچزکی میزبانی کرے گا تو ورلڈ ٹی 20 آئی سی سی کا اپنا ایونٹ ہے لیکن آئی سی سی اس کے لئے کتنا سنجیدہ ہے،اس کا اندازا کرنا کوئی مشکل نہیں ہے.
ورلڈ ٹی 20 گزشتہ سال ممکن تھا
کرکٹ گلوبل باڈی چاہتی تو ایونٹ ممکن تھا،کورونا کے باوجود یہ گزشتہ سال بھی ہوسکتا تھا،آخر پاکستان نے انگلینڈ،نیوزی لینڈ میں سیریز کھیلی تھیں جب کہ بھارت نے آسٹریلیا کا دورہ کیا تھا،اس سے پہلے یو اے ای میں 2 ماہ کے قریب آئی پی ایل کا میلہ کروایا تھا لیکن ورلڈ ٹی 20 کے لئے آئی سی سی اور میزبان آسٹریلیا نے کیوں ہاتھ کھڑے کئے تھے،اسے سمجھنے کے لئے گزشتہ سال کی چلتی خبروں کو ذرا ذہن میں لائیں کہ بھارتی بورڈ نے ستمبر سے نومبر تک آئی پی ایل رکھ لی،پھر آسٹریلیا کو بھارت کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز کے لالے پڑگئے تھے،پھر سب نے دیکھا تھا کہ کیسے ورلڈ ٹی 20 ملتوی ہواتھا،آئی پی ایل بھی ہوا تھا،باقی دورے بھی ہوگئے تھے.
ورلڈ ٹی 20 سمیت گلوبل ایونٹس سے غیر دلچسپی کس کی
اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ کرکٹ کےبڑے ممالک کو گلوبل ایونٹس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ اس سے ان کو چند سو ملین ڈالرز ملتے ہیں اور بھارت،انگلینڈ ،آسٹریلیا کو اپنی سیریز سے سیکڑوں ملین ڈالرز کا منافع ہوجاتا ہے تو ایسے میں وہ کیوں کھیلیں گے،یہی مسئلہ گزشتہ سال تھا اور اسی وجہ سے ایونٹ نہ ہوسکا تھا،سوال یہ ہے کہ یہ غیر دلچسپی اب بھی ہے؟سادہ سا جواب ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے اب بھی ایسا ہے ،ورلڈ ٹی 20 کا فیصلہ پہلے سے تھا کہ اکتوبر اور نومبر میں ہوگا،اب آئی پی ایل 2021 ملتوی ہوئی تو اسے ستمبر،اکتوبر میں تجویز کرلیا گیا اور اس کے لئے وہی مقام منتخب ہوا جو پہلے سے ورلڈ ٹی 20 کے لئے قریب طے تھا.کیا یہ مناسب تھا؟کیا ایسا کرنے سے گلوبل ایونٹ کا شور،اس کی تیاری،اس کی تشہیر،اس کا شور اور سب سے بڑھ کر اس کے لئے پلیئرز کا ردھم قائم ہوا؟ہر گز نہیں .اس کا ذمہ دار کون ہے.
آئی پی ایل کا ورلڈ ٹی 20پر غلبہ،کھلاڑی راغب اور بورڈز کا عجب رویہ
اب اس سال کے ورلڈ ٹی 20 کو ہی دیکھ لیں کہ یہ 14 اکتوبر سے شروع ہونا ہے اور عرب امارات کے 3 سنٹرز دبئی،شارجہ اور ابو ظہبی 19ستمبر سے 11اکتوبر تک ورلڈ ٹی 20کی بجائے آئی پی ایل کے لئے بک ہونگے،کیا کبھی سنا تھا کہ جہاں ورلڈ کپ کے میچز ہونے ہوں ،وہاں کے گرائونڈز کا اس قدر زیادہ استعمال 3 روز قبل تک جاری رہ سکتا ہے؟کبھی بھی نہیں مگر اس بار ایسا ہی ہوگا.پھر دوسرا نقصان یہ ہورہاہے کہ دنیا بھر کےتمام اچھے کھلاڑی آئی پی ایل کے لئے جارہے ہیں،نیوز ی لینڈ،جنوبی افریقا،ویسٹ انڈیز،بنگلہ دیش،انگلینڈ اور آسٹریلیا پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ ان کے کھلاڑی آئی پی ایل کھیلیں گے اور قومی ڈیوٹی سر انجام نہیں دیں گے،چنانچہ نیوز ی لینڈ کے دورہ بنگلہ دیش اور پاکستان،اسی طرح انگلینڈ کے دورہ پاکستان میں کئی سپر اسٹارز نہیں ہونگے اور یہ سب اس عرصہ میں آئی پی ایل کھیلیں گے.کیا یہ درست پریکٹس ہے؟
سابق کپتان انضمام الحق نے بھی اس پر آواز بلند کی ہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی سطح پر خاموشی ہے،ایسا لگتا ہے کہ جیسے سارے بورڈز بے بس ہیں اور یا پھر ان کا ریمورٹ کسی اور کے ہاتھوں میں ہے،اس لئے کہ ہر ملک کی اپنی سیریز ہو،اس کے کھلاڑی اپنے ملک کی نمائندگی کی بجائے،انٹر نیشنل کرکٹ کی بجائے ڈومیسٹک لیگز میں جاکر اپنے ملک کی نہیں بلکہ غیر ملک کی ٹیموں کی نمائندگی کرتے دکھائی دیں تو انکے بورڈز،حکام کا قصور ہےاور آئی سی سی کی معاونت ہے کیونکہ انٹر نیشنل کرکٹ پر پرائیویٹ لیگز کی فوقیت اور کھلاڑیوں کا اس میں جانا انٹر نیشنل کرکٹ کو بے عزت کرنے والی بات ہے،تمام بورڈز ملوث ہیں اور آئی سی سی معاون ہے.
ورلڈ ٹی 20 اور رکن ممالک کے متوقع نقصانات،آئی سی سی کو ممکنہ دھچکا
ورلڈ ٹی 20سےعین قبل تیز ترین اور مصروف ترین لیگ آئی پی ایل کے انعقاد سے رکن ممالک کو کئی نقصانات ہوسکتے ہیں،ان کی ٹیم اپنی سیریز عام کھلاڑیوں سے کھیل کر ڈی گریڈ ہوگی اور میگا ایونٹ سے قبل آئی پی ایل جیسی بڑی لیگ کھیلنے والے بڑے کھلاڑی بڑی انجریز کا شکار ہوسکتے ہیں،تھکاوٹ سے لازمی دوچا ہونگے جس سے ان کی کارکردگی خراب ہوگی،ٹیم ہارے گی اور ایونٹ کی تیزی کو جھٹکا لگے گا.ورلڈ ٹی 20 شروع ہونے سے 3 روز قبل تک جب آئی پی ایل کا ڈنکا بجے گا تو ورلڈ ٹی 20 کا اثر اور مقبولیت کم ہوگی،پھر اگر کھلاڑی باہر ہوگئے یا تھک گئے تو ورلڈ ٹی 20کے اصل رنگ پھیکے پڑیں گے،اس کا نقصان آئی سی سی اور آخر میں تمام رکن ممالک کو ہوگا.
آئی سی سی کا اصل فرض
انٹر نیشنل کرکٹ کونسل کا اصل کام یہ ہے کہ گلوبل ایونٹ سے کم سے کم 15 دن قبل تمام دیگر سرگرمیاں معطل ہوں،صرف گلوبل ایونٹ کی بات ہو،اس کی تیاری ہو،اس کا شور ہو،اس سے ڈیجیٹل آمدنی ہو،تب ہی سب ممالک کو فائدہ ہوگا مگر سب کے فائدے کو کون دیکھےاور کیوں دیکھے.
یہ بھی پڑھیں
دورہ پاکستان اور ورلڈ ٹی20،کیویزکو ٹکٹ جاری،اسکواڈز سے ایک بڑا سبق