پے درپے ناکامیاں،ٹیم منیجمنٹ کی فراغت کی سرگوشیاں،سابق کرکٹرزکا عجب کردار
دیکھنایہ ہوگا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی انگلینڈ میں پے درپے ناکامیوں کا پاکستان کرکٹ بورڈ کیا نوٹس لے گا.یہ سلسلہ ابھی چلے گا کیونکہ ابھی تیسرا میچ باقی ہے،کوئی چمتکار ہو بھی جائے تو بھی سیریز تو ہاتھ سے چلی گئی،اس کے بعد پھر ٹی20 سیریز ہے،وہاں بھی درگت بنی تو ویسٹ انڈیز کا فوری دورہ ہے جہاں آسٹریلیا کی ٹیم اوپر تلے 2 ٹی 20 میچز ہار چکی ہے،چنانچہ پاکستان کو اس کے نتائج کا ذہن ابھی سے بنانا ہوگا ،ویسٹ انڈیز کا دورہ ختم ہوگا تو ستمبر کا ماہ شروع ہورہا ہوگا،ایسے میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز ہیں جو کہ اوپر تلے ہیں اور پھراس کے فوری بعد ورلڈ ٹی 20 ہے،ایسے میں ٹیم منیجمنٹ کی تبدیلی فوری طور پر شاید ممکن نہ ہو لیکن سوال یہ ہےکہ ٹیم اگر ایسے ہی ہارتی رہی تو اس کا انجام کیا ہوگا.ورلڈ ٹی 20 کی شکست کا انتظار کیا جائے گا اور پھر ان سب کا بوریا بستر گول ہوگا.
کسی کو بھولا نہیں ہوگا
کسی کو بھولا نہیں ہوگا کہ 5 ماہ قبل تک مصباح اور وقار کی کشتی بھنور میں تھی ،انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں ناکامی کے بعد ان کی فراغت کی سر گوشیاں بلند ہونے لگی تھیں کہ پاکستان کو جنوبی فریقا کے خلاف ہوم سیریز مل گی،ٹیم جیت گئی اور یہ بچ گئے لیکن غیر ملکی دوروں میں جنوبی افریقا میں کامیابی کو بڑا اہم جانا گیا جب کہ زمبابوے میں ٹیم ڈر ڈر کر جیت تو گئی لیکن تنقید کی زد میں ضرور آئی،اب دیکھیں کہ زمبابوے جیسی کمزور ٹیم کے خلاف ڈر کر کھیلنا بھی کیا کھیل تھا،اتوار 11 جولائی 2021 کو بنگلہ دیش نے واحد ٹیسٹ کے آخری دن زمبابوے کو 220 رنزکے بھاری مارجن سے ہرا ہی دیا ہے نا،تو ایک اچھی ٹیم کو لمزور ٹیم سے اپنے وقار کے مطابق جیتنا چاہئے.
کرک سین کا تجزیہ درست رہا
اس کے بعد پاکستان نے اب انگلینڈ کا دورہ شروع کیا تو میزبان ٹیم 48 گھنٹے سے بھی کم وقت میں تبدیل ہوگئی،دوسرے درجہ کی ٹیم کو دیکھتے ہوئے انضمام الحق اور رمیز راجہ نے تو پاکستان کی جیت کی پیش گوئی کر دی تھی لیکن کرک سین نے واضح لکھا تھا کہ پاکستان کی ٹیم اس کمزور ٹیم کے خلاف نہیں جیت سکتی،بد قسمتی سے کرک سین کا تجزیہ درست رہا ہے اور اور پاکستانی ٹیم توقعات کے عین مطابق ہار گئی.اب سوال یہ ہے کہ کرک سین وقت سے قبل واشگاف الفاظ میں لکھ رہا ہےکہ ٹیم ہار جائے گی اور انضمام،رمیز جیسے سابق کرکٹرز نہ صرف جیت کی بات کر رہے تھے بلکہ کئی کرکٹرز کی خوبیاں بھی گنوارہے تھے،خدا کا کرنا یہ ہوا ہے کہ 2 میچزکی شکست کے فوری بعد دونوں نے یو ٹرن لیا ہے اور ان کے ساتھ شعیب اختر بھی مل گئے ہیں،کسی کو بورڈ خراب لگا.کسی کو کپتان برا لگا،کسی کو ٹیم منیجمنٹ میں خرابی لگی تو کسی کو پلاننگ خراب لگی،چنانچہ پھر جس نے جو بولا،در اصل اپنی بھڑاس نکالی.
کرک سین آگاہ،منیجمنٹ کیوں بے خبر
سوال یہ ہے کہ کرک سین سیریز کے آغاز سے قبل پاکستان کے پیس اٹیک،اسپنرز سے آنکھین بند رکھنے کے جرم،بیٹنگ لائن اپ میں جھول،بیٹسمینوں کی ترتیب میں غلطیوں کی نشاندہی کرتے یہ لکھ رہا ہے کہ یہ حادثاتی ٹیم ہے،اس کا جیتنا ممکن نہیں ہے تو پاکستان کے لئے سیکڑوں ٹیسٹ میچز اور 1000کے قریب محدود اوورز کے مقابلے کھیلنے والے ان کرکٹرز کو یہ باتیں کیوں دکھائی نہیں دیتی ہیں.
پی سی بی سے بالواسطہ مراسم
کرک سین آج اپنے پڑھنے والوں کو اس سوال کا جواب بھی دے دے کہ ان کرکٹرز کو،ان میں وسیم اکرم کو بھی شامل کرلیں،کہ انہیں پہلے سب اچھا کیوں نظر آتا ہے،بعد میں ٹھس قسم کی تنقید کرکے مٹی پائو والا کام کیوں کرتے ہیں،کسی کے پی سی بی سے براہ راست اور کسی کے پی سی بی سے بالواسطہ مراسم ہیں اور یہ مختلف شکلوں میں ہیں،ان میں سے چند اس کرکٹ سسٹ،اس ٹیم،اس کپتان،اس منیجمنٹ اور اس سیٹ اپ کو سپورٹ کرنے والے بھی ہیں،وہ اگر وقت سے قبل نشاندہی کرنا شروع کریں گے تو دراصل اپنے اولین موقف اور اپنی سپورٹ کے خلاف بول رہے ہونگے،تو ایسا کون کرے گا اور کیوں کرے گا.پاکستان کرکٹ کی بربادی کے حوالہ سے رمیز راجہ اور شعیب اختر پھر بھی کچھ بول لیتے ہیں لیکن باقی مصلحت کی زبان استعمال کرتے ہیں.
ایسا کب تک چلے گا
جنوبی افریقا میں سب نے دیکھا تھا کہ رضوان کو نچلے نمبرز پر لانا نقصان کا باعث بنتا ہے،انگلینڈ میں یہ کام جاری ہے ،چنانچہ وہ ناکام جارہے ہیں،اسی طرح کپتان کی پلانن نکمی ہوتی ہے،کون کہتا ہے کہ بابر اعظم نہایت ذہین کپتان ہیں،ایسا قطعی نہیں ہے،پہلے میچ میں انگلینڈ کی دوسری اننگ اور دوسرے میچ میں انگلینڈ کے 160پر 7وکٹ لینے کے بعد بائولرز کا استعمال اورفیلڈنگ کے لئے پوزیشنز کا انتخاب انہوں نے جس طرح کیا،اس کی مثال ہی نہیں ملتی ہے.سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا،ٹیم منیجمنٹ،ان کی دفاعی حکمت عملی،کمزور کپتانی اور غلط ٹیم سلیکشن کب تک برداشت کی جائے گی،اس کا حل کیا ہے اور ٹیم کو ٹریک کیسے درست ہوگا،اگلے دن پاکستان کے سابق چیف سلیکٹر انضمام پہلے میچ کی شکست پرفرمارہے تھے کہ ٹیم ہارگئی ہے لیکن انہیں اس ٹیم میں ایک بہترین ٹیم کی شکل پہلی بار نظر آئی ہے،یہ الگ بات ہے کہ دوسرے میچ کی شکست کے بعد یہی انضمام بھی ٹیم کی اصل شکل بیان کرنے پر مجبور تھے،جب دھانی جیسے کرنٹ والے بائولرز کو باہر نکالا جائے گا اور جب فہیم اشرف جیسے اوسط درجہ کے بائولرز بائولنگ کا اہم ستون مانے جائیں گے،جب ٹیم میں ایک ریگولر لیگ اسپنر نہیں ڈالا جائے گا،جب رضوان جیسے انفارم بیٹسمین کا بیٹنگ نمبر بدلا جائے گا اور جب فخر زمان جیسے کمزور تیکنیک کے بیٹسمین کو کمزوری دور نہ کرنے کے باوجود باربار کھلایا جائے گاتو انگلی کپتان،چیف سلیکٹر محمد وسیم اور ٹیم منیجمنٹ پر اٹھے گی،ایسے میں کوئی ان کے دفاع کی کوشش کرے اور یا یہ کہے کہ ٹیم اچھی ہے،دن برے ہیں،اس کی عقل پر ماتم کرنا ہوگا.
نااہل افراد کی چھٹی فوری کرنی چاہئے،پی سی بی کی راہداریوں میں ورلڈ ٹی 20تک کے نتائج کی سرگوشیاں ہیں،میں واضح لکھ دوں کہ ٹیم ورلڈ ٹی 20 جیت بھی جائے کہ ایشین وکٹوں پر کھیلا جارہا ہے تو بھی ورلڈ ٹی 20 کی جیت بھی اس پاکستانی ٹیم اور منیجمنٹ کے لئے کامیابی کی سند نہیں ہے،سب ٹھیک ہونے کی چابی نہیں ہے کیونکہ سسٹم کی بنیاد تاحال خراب ہے،کل کے چلتا کی بجائے آج کا چلتا بنتا ہے.