کارڈف میں ڈونکی راجہ شو ،ورلڈ کپ سپر لیگ ٹیبل سے جھٹکا
پاکستانی ٹیم کی انگلینڈ کے ہاتھوں نہایت غیر متوقع شکست پر مختلف تبصرے جاری ہیں،اس میں سابق کرکٹرز بھی پیش پیش ہیں،شعیب اختر نے سخت رد عمل دیا ہے اور کوچنگ اسٹاف کی کلاس لگائی ہے جبکہ رمیز راجہ بھی بہت غصے میں ہیں،ساتھ میں انہوں نے کھری کھری سنائی ہیں،کم سے کم ان دونوں نے قومی ٹیم کی اس مایوس کن پرفارمنس پر کوئی جواز فراہم نہیں کیا ہے کہ ان کا دن نہیں تھا،قسمت خراب تھی یا کرکٹ میں ایسا دن آجاتا ہے وغیرہ وغیرہ.
گھبرانا نہیں ہے
ہارنے والے کپتان بابر اعظم نے بناکسی فائٹ،کوشش کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بھی کرکٹ فینز سے کہا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے،ہم سیریز میں واپسی کریں گے،میچ میں مشکل حالات کسی بھی وقت آسکتے ہیں،اس لئے ٹیم اس سے سیکھے گی اور میچ جیتنے کے لئے کوشش کرے گی.یہ پاکستانی ٹیم ہی ہے جو معمولی ٹیم کو بڑی بناکر دنیائے کرکٹ کے سامنے دیو ہیکل بنادیتی ہے،آئوٹ آف فارم پلیئرز کی فارم بحا ل کرادیتی ہے اور ساتھ میں انہیں مستقبل کا بڑا ہیرو بنانے کی بنیاد رکھتی ہے،ایک تتر بتر ٹیم جس کے کپتان کو نیوزی لینڈ سے بلایا گیا اور جس کے پلیئرز کو کائونٹی میچزکے دوران سے زبردستی اٹھایا گیا اور ایسے پلیئرز جو ایک اننگ کھیل چکے تھے ،وہ پاکستان کے خلاف آکر اپنی فارم بھی بحال کرواگئے.
بی ٹیم سے شکست،ہماری عادات کی عکاسی
انگلینڈ کی بی ٹیم کے پاس کھلاڑی ہی نہیں تھے،ایسی بکھری ٹیم کے خلاف شکست صرف ہماری عادات کی عکاسی کرتی ہے،ایسی پچ پر 400 اسکور بن سکتے تھے،غلط تکنیک کی وجہ سے ٹاپ آرڈر آئوٹ ہوگئے،نہ کھیلنے کے لئے آگے گئے اور نہ پیچھے،بابر سمیت تمام کے تمام کریز میں کھڑے کھڑے وکٹ دے گئے،یہ نہایت ہی افسوسناک کارکردگی تھی،پھر باڈی لینگویج بھی دیکھنے والی تھی کہ جیسے سامنے ویسٹ انڈیز کے زمانے کے خطرناک بائولرز ہوں.پاکستان پی ایس ایل سیزن کھیل کر انگلینڈ پہنچا اور وائٹ بال کرکٹ میں کیسے ناکام ہوگئے ہیں.رمیز راجہ کہتے ہیں کہ فخر نے پہلے صہیب کو آئوٹ کروایا اور پھر خود بھی آسانی سے آئوٹ ہوگئے،شاداب خان کا کردار کیا ہے،شاید اسے خود علم نہیں ہے،اسی طرح حسن علی اور فہیم اشرف وکٹ دے گئے.پاکستان نے بائولنگ میں بھی مایوس کیا،آف اسٹمپ سے باہر میلان کو کیوں کھلایا گیا،کرولی کو بھی بحال کروادیا.اب دنیا پاکستانی بائولنگ کی فین ہے،اسے باصلاحیت مانتی ہے لیکن انگلینڈ کے خلاف پہلے میچ میں ٹھس ہوگئی ہے،لگتا ایسا ہے کہ تمام کا سوئچ آف ہوگیا.رمیز راجہ یہ بھی مانتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم انگلینڈ کی اس ٹیم کو نہایت آسانی سے مات دے سکتی ہے،بس تھوڑی عقل اور بہتر کھیل کی ضرورت ہے.پہلے میچ کی حد تک تو یہ کہنا پڑے گا کہ یہ ایک نہ دیکھے جانے والی پرفارمنس تھی اور ایک نہ دیکھا جانے والا میچ تھا.
پہلی پوزیشن کا خواب بکھر گیا
دوسری جانب پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ سپر لیگ پوائنٹس ٹیبل پر پہلی پوزیشن کا جو خواب دیکھ رہی تھی،اس سے دور ہوگئی ہے کیونکہ انگلینڈ نے اس فتح کے ساتھ ہی اپنے پوائنٹس کی تعداد 75 کرلی ہے،اب اگر وہ اگلے دونوں میچز ہار بھی جائے تو اس کی نمبر ون پوزیشن کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا،کمال بات یہ ہے کی قومی ٹیم جو انگلینڈ کی کمزور ٹیم کو ہرا کر پہلے نمبر پر جانے کا سوچ رہی تھی وہ لڑھک کر چوتھے نمبر پر جاگری ہے ،اس کے پوائنٹس پہلے کی طرح اگرچہ 40ہی ہیں لیکن 141پر ڈھیر ہونے اور 169 بالز قبل میچ میں ہارنے کے بعد اس کا نیٹ رن ریٹ بھی تباہ ہوا ہے اور پاکستان اب چوتھی پوزیشن پر آگیا ہے.نئی پوزیشن کے مطابق انگلینڈ پہلے،بنگلہ دیش دوسرے،آسٹریلیا تیسرے اور پاکستان چوتھے نمبر پر ہے،آسٹریلیا کے بھی پاکستان کی طرح 40 ہی پوائنٹس تھے لیکن اس کا رن ریٹ بہتر ہوگیا ہے.
پاکستان کے لئے ممکنہ چانسز
انگلینڈ کے خلاف باقی ماندہ 2 میچزجیت کر پاکستان اپنے پوائنٹس کی تعداد 60کرسکتا ہے،اس طرح وہ بنگلہ دیش اور آسٹریلیا سے آگے نکل کر دوسری پوزیشن پر آجائے گا،نتیجہ میں اس کے لئے اگلا سفر قدرے آسان ہوگا ،اسی طرح ایک کامیابی سے وہ بنگلہ دیش کے برابر ہوجائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی کمزور ٹیم کے خلاف سیریز کی شکست کسے ہضم ہوگی،پہلے بھی لکھا تھا کہ بین سٹوکس کی اس کمزور ٹیم سے ہارنے پر بابر اعظم کی وہ تاریخی چھترول ہوگی کہ جس کی ماضی میں مثال ملنا مشکل ہوگی.وہ لوگ جو ابھی بھی کسی خوش فہمی میں ہیں،وہ جان لیں کہ پیس اٹیک میں شاہین آفریدی اور حسن علی کا کوئی جوڑ نہیں ہے،حسن علی اوسط درجہ کے بائولر ہیں،ایسا بائولر جس میں کبھی کرنٹ ہوگا اور کبھی نہیں ہوگا،شاہین آفریدی اچھے بائولر ہیں لیکن اچھے ساتھی بائولر کے نہ ہونے اور کچھ کوچنگ کی کمی کی وجہ سے وہ بھی شروع کے 3 اوورز کے بائولر ہی رہیں گے.ایک ایسی ٹیم جس کی پہچان یہ ہوتی تھی کہ اس کے پاس کوالٹی کے ٹاپ اسپیشلسٹ فاسٹ بائولرز ہوتے تھے جن کی خوبی ہی پیس،سوئنگ اور بائولنگ ہوا کرتی تھی،وہ پارٹ ٹائم میڈیم پیسر کو اپنا اولین اٹیک بناکر کھیل رہی ہے،یہ وہ گزشتہ ایک عشرے کی تباہ کن منطق ہے جسے مصباح اینڈ کمپنی نے پاکستانی ٹیم کے ساتھ تاحال نتھی کر رکھا ہے،یہ سوچ نہیں بدلے گی تو حالت یہی رہے گی،یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا کو ایک روزہ کرکٹ میں ایک نہیں بیک وقت 2،2 لیگ اسپنر کھلاکر پریشان کرنے والی پاکستانی ٹیم ایک اسپیشلسٹ اسپنر کے ساتھ میدان میں کیوں نہیں اترتی،آخر پلان کا منترا کیا ہے،کون اس کا فلاسفر ہے.
ڈونکی راجہ فلم چل رہی ہے
ہفتہ کو لارڈز کے بارش والے موسم میں پاکستان میچ جیت بھی جائے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوگا کہ ٹیم ٹھیک ہوگئی ہے اور ہماری تنقید غلط ہے،اس سال ورلڈ ٹی 20 میں علم ہوجائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے،انگلینڈ نے 2015 ورلڈ کپ کی ذلت آمیز شکست کے بعد ہر چیز بدل دی تھی،نتیجہ میں اس سے اگلا 2019 کا ورلڈ کپ جیت لیا ،یہاں گنگا التی بہتی ہے،ایک پلیئر اپنی ناقص حکمت عملی کے سبب ٹیم سے باہر ہوتا ہے،ایک ٹیسٹ میچ جتوادیتا ہے تو جواب میں وہ اے کیٹگری میں آجاتا ہے اور مزید ساتھ میں وائٹ بال کرکٹ کا پہلا اٹیک بائولر بن جاتا ہے،کیا ہے یہ سب؟ تماشا چل رہا ہے،سرکس لگی ہے اور یاپھر ڈونکی راجہ فلم چل رہی ہے.