ویسٹ انڈیز سے شکست،انضمام الحق کی پرانی یادیں تازہ ،کپتان اور کوچ سے کیا کہا

0 238

رپورٹ : عمران عثمانی
پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا دوسرا کرکٹ ٹیسٹ آج جمعہ سے جمیکا میں کھیلا جارہا ہے.سیریز میں گرین کیپس کو خسارہ ہے،اب یہ سیریز پاکستان ہارے گا اور یا پھر ڈرا ہوگی،چونکہ خسارہ ہے،قرض ہے،اس لئے ڈرا کے لئے یہ ٹیسٹ جیتنا ضروری ہے.کمزور بائولنگ اٹیک کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ شکست ہوگئی.اب یہ بات گزر گئی،نیا میچ آنے کو ہے.ٹیم کو کم بیک کرنا ہے اور جیتنا ہے،اس کے لئے ایسا کیا فارمولہ ہوکہ فتح پکی ہو.یہ ایک حل طلب سوال ہے.ویسے توکرک سین نے متعدد خرابیوں کا ذکر کیاجو آپ پڑھ چکے ہیں،اس ضمن میں رخ کرتے ہیں انضمام الحق کی جانب.پاکستان کے سابق کپتان ہیں،چونکہ تبصرے کرتے ہیں،نتیجہ کےطور پر پھر کچھ نشاندہی بھی کرتے رہتے ہیں.
پاکستان کی شکسست نے انضمام کو کیا یاد کروادیا،نئی دلچسپ یادیں
انضمام الحق چونکہ سابق کپتان بھی ہیں،پاکستان کے کامیاب بیٹسمین رہے ہیں.سب سے بڑھ کر چیف سلیکٹر بھی رہ چکے ہیں.اتفاق سے انہوں نے پہلے ٹیسٹ کی شکست پر اپنا پہلا رد عمل ابھی تھوڑی دیر قبل دیا ہے.اپنے آفیشل یوٹیوب چینل پر کہتے ہیں کہ اس بات کو 2 سے 3 دن گزر گئے.پاکستان ہار گیا.چوتھی اننگ میں بائولنگ اچھی تھی،زور خوب لگایا لیکن فتح نصیب نہ ہوئی.بیٹنگ میں جیسے پاکستان نے پرفارم کیا،وہ نہیں کرنا چاہئے تھا.انضمام کہتے ہیں کہ تبصرے سے قبل اپنی ایک ذاتی بات شیئر کرنا چاہتا ہوں،جس وقت پہلا ٹیسٹ شروع ہوا.ویسٹ انڈیز کی بائولنگ دیکھی یا بیٹنگ دیکھی.مجھے اپنا دور یاد آگیا،90 کے عشرے میں اور پھر 2000کے شروع میں ،میں وہاں تیم کے ساتھ گیا.اب کی ٹیم دیکھ کر مجھے جھٹکا لگا کہ یہ ویسٹ انڈیز کی 20 سال پہلے والی ٹیم ہی نہیں ہے.جب وہاں میچ ہونا ہوتا تھا.ایک رات قبل ان کے فاسٹ بائولرز کو دیکھ کر راتوں کو نیند نہیں آتی تھی.لمبے قد،دراز فاسٹ پیسرز،کانپ جاتے تھے.کوئی 150کی اسپیڈ سے کم بال نہیں کرتا تھا.جیسا کہ یہ ٹیسٹ ہوا تو اس میں کوئی 121سے بال کر رہا تھا.کوئی 126 اور کوئی 133 کی اسپیڈ سے بال کر رہا تھا،پھر جب میں نے بیٹنگ دیکھی تو مجھے 1993 کا ویسٹ انڈیز کا پہلا دورہ یاد آگیا کہ ڈسمینڈ ہینز،کارل ہوپر،برائن لارا،رچی رچرڈ سن،فل سمنز،ڈیوجان ہوتے تھے جو آئوٹ نہیں ہوتے تھے،پھر پیٹرسن،والش،مارشل،اہمبروز تھے .ایک وہ وقت تھا اور ایک یہ ٹیم کھیل رہی تھی.مجھے 1987 کی ویسٹ انڈیز کی سیریز یاد آگئی،میں نہیں تھا لیکن تب ویون رچرڈز بھی تھے.جاوید میاں داد نے اس کی سیریز میں 2 سنچریز کی تھیں.پاکستان ایک ٹیسٹ جیتا تھا اور دوسرا بھی قریب جیت گیا تھا لیکن امپائرنگ کے بہت ایشوز تھے،میچ نہیں جیت سکا،آخری وکٹ پر اسکور ہوگیا.پاکستان کی ٹیم میں بھی گریٹ پلیئرز تھے.انضمام نے بتایا کہ جاوید بھائی کی باڈی پر بال اتنی بار لگی تھی کہ لال سرخ ہوگئے لیکن وہ اسے پریس بھی نہیں کر رہے تھے کہ دوسری ٹیم سمجھے کہ میں درد میں ہوں.میں وہ سیریز دیکھ چکا تو میں نے وہ سیریز دیکھی ہیں.اب یہ دیکھ رہا تھا.سادہ سی بات کروں گا کہ پاکستانی ٹیم جب پہلا ٹیسٹ اب ہاری ہے اور ویسٹ انڈیزکی اس ٹیم سے ہاری ہے تو مجھے بہت دکھ ہوا ہے.اس ٹیم کے خلاف آرام سے جیتنا چاہئے تھا.یہ ویسٹ انڈیزکی ٹیم اوسط درجہ کی ہے،دوسرا ٹیسٹ بھی جیتنا چاہئے.
دفاعی کھیل ناکامی کا اہم کردار
پاکستان کی بیٹنگ کی بات کروں تو میں ایک عرصہ سے ایک بات کہتا آرہا ہوں کہ سٹرائیک ریٹ بہتر کریں،میں اس لئے کہتا ہوں کہ جب بائولرز پر حملے کریں گے تو وہ دبائو میں آجائیں گے،اب اس ٹیم کے خلاف پاکستان دفاعی کھیلا.80بالز پر 10 رنز کریں تو اگلے اور شیر بنیں گے.یہ وکٹ بہرحال اچھی تھی،خطرناک تھی لیکن یہ بائولنگ ایسی نہیں تھی کہ اس کے خلاف دفاع میں جائیں،اس بائولنگ کے خلاف اٹیک نہیں کریں گے تو یہ پھر پکڑلیں گے.میرا مشورہ یہ ہے کہ اپنی بیٹنگ میں یہ اٹیک کریں.دوسرا اہم ایشو اسپنرز کا ہے تو پاکستانی ٹیم کے اسپنر وہ کام نہیں کر رہے جو ایک سال پہلے تھے،یاسر شاہ اب خطرناک ثابت نہیں ہورہے ہیں.وہ ردھم میں دکھائی نہیں دے رہا ہے تو پاکستان ایک اسپن ڈیپارٹمنٹ سے مار کھارہا ہے.
مصباح الحق اور بابر اعظم کو ایک بڑا مشورہ ،سلیکٹرز کی کھنچائی
انضمام الحق نے پاکستانی ہیڈ کوچ مصباح الحق اور کپتان بابر اعظم کو ایک بڑا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ اپنے پلیئرز کو کلیئرز ہدایات دیں کہ وہ مثبت کھیلیں،آپ ناکامی سے مت ڈریں،اس سے نقصان ہورہا ہے،جب مثبت اور بہتر کھیلیں گے تو یہ اوسط درجہ کے بائولز بیٹھ جائیں گے.میں سلیکشن کے حوالہ سے اہم بات کروں گا کہ کافی سارے پلیئرز ٹی 20 کی بنیاد پر سلیکٹ ہوئے ہیں،اب مسئلہ یہ ہے کہ کوچ کو جب ضرورت پڑتی ہے تو وہ بنچ پر موجود کھلاڑی کو نہیں کھلاسکتا ،جیسے اب شاہ نواز دھانی گئے ہیں،وہ ٹی 20 کھیل کر ٹیسٹ کے لئے سلیکٹ ہوگئے،اب کوچز انہیں کس بنیاد پر کھلائین.اسی طرح عبد اللہ شفیق گئے ہیں،ان کے پاس بھی کوئی تجربہ نہیں ہے،ایسے میں کوچ کیوں کھلائے گا.نتیجہ میں یہ ایسے ہی گھوم پھر کر واپس آجائیں گے تو یہ سلیکشن نہایت نقصان کا سبب بن رہی ہے.فرسٹ کلاس کا تجربہ نہیں ہے.پہلے ٹی 20 میں سلیکٹ کیا،پھر ایک روزہ اور اب ٹیسٹ کے لئے.ایک سال سے ساتھ بٹھایا ہوا ہے ،نہ وہ انٹر نیشنل کرکٹ کھیل پاتے ہیں اور نہ ہی فرسٹ کلاس کرکٹ.ان سب کو تجربہ کی ضرورت ہے،ان کو اپنے ساتھ بنچ پر مت بٹھائیں،اس سے کوئی نہیں سیکھ پائے گا تو بابر اعظم کو کہوں گا کہ اپنے بیٹسمینوں سے بات کریں کہ وہ تھوڑا اچھا کھیلیں .کیچز کی شکل میں میچ ڈراپ کیا تھا ورنہ 30سے 35 رنز سے یہ بھی جیت جاتے.
بزدلی والی کرکٹ بند کریں
پاکستان کے سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق نے اپنے اس تازہ ترین تبصرے میں بہت کچھ کہا ہے،آسان لفظوں میں وہ یوں کہہ گئے ہیں کہ یہ بزدلی والی کرکٹ بند کریں،اٹیکنگ کرکٹ کھیلیں ورنہ اور مار پڑے گی.دوسرا انہوں نے سلیکشن کمیٹی کی کلاس لگائی ہے کہ کیسے کیسے کھلاڑی سلیکٹ کرواکر بنچ پر سجائے جاتے ہیں.شاہ نواز دھانی کے پاس بے شک تجربہ نہیں ہے لیکن ویسٹ انڈیز کی گراسی پچ پر وہ اچھا کرسکتے ہیں،اس لئے تجربہ نہ ہونے کے باوجود ان کا کھلانا بنتا ہے،بات وہی ہے نا کہ شکست کا ڈر .مصبا ح اینڈ کمپنی کو اس خوف سے باہر آنا ہوگا.اگر اٹیکنگ کھیل نہیں ہوگا تو یہی عام بائولرز ایک بار پھر خاص بن جائیں گے.
یہ خبر بھی دلچسپی سے خالی نہیں
پاکستان،ویسٹ انڈیز کا دوسرا ٹیسٹ آج سے،دو نئی باتیں پہلی بار

Leave A Reply

Your email address will not be published.