رپورٹ :عمران عثمانی
پاکستان کرکٹ ٹیم کی ورلڈ ٹی 20 سلیکشن پر بڑا رد عمل آگیا۔عامر سہیل بھی ورلڈ کپ 1992 کی ونر ٹیم کے اہم رکن ہیں۔رمیز راجہ کے ساتھی اوپنر تھے۔اتفاق سے ان کا رد عمل بھی اس وقت سامنے آیا ہے جب رمیز راجہ پی سی بی چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کا بیڑا غرق ہوگیا۔سلیکشن درست نہیں۔3 سال سے کرکٹ نہیں چلائی گئی،وسیم اکرم پر بڑی چوٹ لگائی،ان کے کرکٹ کمیٹی رکن ہونے کا طعنہ دیا۔ساتھ میں رمیز راجہ سے کیا توقعات ہیں،وہ بتائیں۔پاکستانئی ٹیم کے کے اصل مسائل کیا ہیں۔ان کا ذکر کیا ،حل بھی بتادیا ہے۔
سلیکشن نے ایک راز کھول دیا،عامر بتاگئے
محمد حفیظ پر بڑا شور تھا۔میں بڑا سوچتا ہوں کہ ٹیم کی سلیکشن کے پیچھے کیا سوچ ہتے۔تھوڑا پیچھے دیکھیں کہ رضوان اور بابر سے اوپننگ کروائی۔جب وہ سیٹ ہوگئے تو دوسرے اوپنرز لے آئے۔پھر جب مڈل آردڈر کا مسئلہ آیا تو پوزیشن بدل دیں۔کافی غلطیاں کیں،اب اگر بابر اور رضوان سے اوپننگ کروائیں گے۔ان کا اسٹرائیک ریٹ 120 بن رہا ہے۔میں نے یہ دیکھنا ہے کہ پہلے 10 اوورز میں سٹرائیک ریٹ کیا کرے گا تو یہ دونوں اوپنرز 10 اوورز میں 80 تک جائیں گے۔اب 180 کرنے کے لئے چانس والے پلیئرز چاہئیں۔ان میں آصف،خوشدل اور صہیب کو بھی لے لیا۔یہ ناکام ہوئے تو پیچھے صرف حفیظ بچیں گے۔وہ بھی آئوٹ آف فارم رہتے ہیں۔اب سوائے حفیظ کے کوئی بیٹنگ آل رائونڈر نہیں ہیں۔نواز کی کوئی سمجھ نہیں آئی۔وہ ہر معاملہ میں مشکل میں ہے۔ایک اور لیگ اسپنر ہونا چاہئے تھا۔یہ سلیکشن ایک چیز کی غمازی کر رہی ہے۔آپ نے 3 سالوں میں کرکٹ کے لئے کچھ نہیں کیا۔آپ کو اب بھی حفیظ،عامر اور شعیب کو سوچنا پڑتا ہے۔مڈل آرڈر میں مسائل ہیں۔اس سال پی ایس ایل میں مڈل آرڈر کے لئے تمام فرنچائزز نے غیر ملکی بلائے تھے۔پی ایس ایل نے پاکستان کی مدد کرنی ہے یا باہر کے لوگوں کی۔شان مسعود نے ٹی 20 کھیلنا سیکھ لیا ہے۔اسے نکال دیا۔پرچیاں ایک گھڑے میں ڈالی ہوئی ہیں۔وہی واپس نکال لیتے ہیں۔اسی لئے لوگ شور مچارہے ہیں۔
کوچ کاکام پلیئر کی اوقات بھی بتانا ہے
محمد وسیم چیف سلیکٹر ہیں۔انہیں بتانا چاہئے کہ کیا سوچ کر سلیکٹ کیا۔اس سے بہتر ٹیم ہونی چاہئے تھی۔سلیکشن مشکل نوکری ہے۔پاکستان میں لوگوں کی سٹرانگ سوچ ہے۔وہ تو بولیں گے۔اگر گزشتہ 2 سے 3 سال ضائع نہ کئے ہوتے تو اج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔پاکستان کرکٹ میں کوچز کی بھرمار کی۔کوچز کو پہلے بتائیں تو سہی کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ویو رچرڈز مجھے بتانے آجائے تو میں سیکھ نہیں سکوں گا،کوچ کو یہ بتانا ہے کہ عامر سہیل کی یہ اوقات ہے اور وہ اپنی اوقات میں کیسے کھیل سکتا ہے۔ہمارے ہیومن ریسورس پر توجہ نہیں ہے۔ابھی پاکستان کے ایک لیجنڈ نے بات کردی کہ پاکستان میں کوئی ایسا نہیں ہے جو کوچ بن سکے۔آپ بھی ٹیکنیکل کمیٹی،کرکٹ کمیٹی کا حصہ رہے ہیں۔آپ نے ان چیزوں پر دھیان دینا تھا۔قابل نہیں ہے تو یہ قابل کس نے بنانا تھا۔جس کی صلاحیت نہیں ہے،اسے رکھا کیوں تھا۔199 کے ڈیبیو والے کو کہاں بٹھا دیا۔
وسیم اکرم 3 سال سے کرکٹ کمیٹی میں کیا کر رہے تھے
عامر سہیل نے وسیم اکرم کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ،انہوں نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں یہی بولا تھا کہ پاکستان میں کوئی اس قابل نہیں ہے کہ کوچ بنایا جائے۔اس پر عامر سہیل نے وسیم اکرم کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور ان سے پوچھا ہے کہ آپ کیا کر رہے تھے اور آپ کے ہوتےہوئے یہ مسائل اب بھی موجود ہیں تو کون ذمہ دار ہے۔عامر سہیل نے عباس پر بھی کڑی تنقید کی ہے کہ یہ پہلے اسپیل کا بائولر تھا۔اس کے بعد بال نہیں پہنچتی۔اس کی فٹنس کے لئے کیا کیا۔اعظم خان کی بات کروں گا کہ پہلے پاکستان میں یہ کلچر تھا کہ سکواش ،ہاکی اور کرکٹ میں یہ ہوتا تھا کہ اس لی لڑی چلتی تھی۔یہ سلسلہ ٹوٹ گیا،اب ایک سابق پاکستانی کرکٹر کے بچے کو موقع ملا ہے تو دیکھنا ہوگا کہ مزید کتنے پلیئرز ایسے آتے ہیں جن کے بڑے بھی پلیئر تھے۔شرجیل خان کے وزن،فٹنس کی بات کی گئی۔اب اگر فکسنگ معاملات کی بات ہوتی ہے تو پھر رمیز کو بڑا تگڑا ہونا پڑےگا،یہ بڑا چیپٹر ہے۔اس کے لئے پھر بہت کچھ کرنا پڑے گا۔رمیز راجہ اس پر آتے ہیں تو ضرور آئیں ،ساتھ میں دیکھ بھی لیں۔
آصف علی کو کیا بتایا،کیا سکھایا
عامر سہیل نے پی سی بی اور ٹیم منیجمنٹ کے ساتھ سلیکٹرز کو آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ آصف علی کو جتنی بار ڈراپ کیا،اسے بتانا تھا کہ یہ اور یہ ٹھیک کرکے آئو،یہ تو نہیں ناکہ نکالا،ڈالا۔یہ تو خرابی والی بات ہوئی۔میں سمجھتا ہوں کہ چھکے مارنے والے پلیئرز ہی سلیکٹ ہونگے،جب پی ایس ایل سے سلیکشن ہوگی،فرسٹ کلاس کرکٹرز کو چھوڑیں گے۔ایک سابق کرکٹر نے بسم اللہ خان کو کیا سے کیا بنادیا،اچھے پلیئر ہیں،انہیں مزید سیکھنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کرکٹ کی ورکنگ درست نہیں ہے۔میں جب کسی پلیئر کو ڈراپ کرتا تھا تو نیٹ پر لے جاکر بتاتا تھا،اس کی مدد کرتا تھا،واپسی کاراستہ دکھاتا تھا،اب سلیکشن اور ڈراپ ہونے کی وجہ نہیں بتائی جاتی۔تیکنیک پر اسے سمجھایا نہیں جاتا۔جاوید میاں داد نے اسٹارٹ میں چھکے مارے،بعد میں ناکام ہوئے،فوری اپنی اپروچ تبدیل کی۔اب اسٹرائیک ریٹ اوپر لے جانے کا کہدیتے ہیں۔یہ نہیں بتاتے کہ کرنا کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ٹی 20 میں سنگل،ڈبل بھی اہم ہیں۔اسی کے ساتھ ہی اس میں فٹنس لیول بھی بڑھ جاتا ہے۔آصف علی اپنی ناکامی ڈومیسٹک کرکٹ سے سیکھ سکتا ہے۔بولنے سے نہیں۔
اب تبدیلی کیسی،پہلے غلط فیصلہ کیوں کیا
پاکستان کرکٹ میں سخت محنت کی ضرورت ہے،سب کو سکھانا ہے،جیسے بائولرز ہوتے ہیں،ویسے بتانا ہوتا ہے۔ہماری بائولنگ تو تگڑی ہے۔بیٹنگ میں مسائل ہیں،ہمیں علم ہے کہ سب کو چھکے مارنے آتے ہیں،ہمیں مکس کرکے دکھائو۔سنگل،ڈبل بھی درکار ہوتے ہیں،ہر روز ہر ایک چھکا نہیں مارسکتا،مخالف ٹیمیں ہی تگڑی ہیں۔عامر سہیل کہتے ہیں کہ پاکستان کی یہ ٹیم تب ہی کچھ کرسکتی ہے کہ پلان کریں۔کس ڈیپارٹمنٹ مین اچھے ہیں۔کہاں کمزور ہیں،تھنکنگ کلیئر ہونی چاہئے۔ایوریج دیکھیں،6 بیٹسمین گر گر کر بھی کھیلیں تو بھی 25 سے 30 اسکور کر سکیں۔پھر بائولنگ وہ سلیکٹ کرنی ہے جو 160تک اگلی ٹیم کو روک سکے۔عامر سہیل کہتے ہیں کہ اگر آپ کو عامر اور شعیب کی ضرورت ہے تو رکھیں،جب آپ کو علم ہے کہ ٹیم کزور ہے تو سلیکشن کیوں کی۔غلطی کیوں کی۔تبدیلی کرنی تھی تو نوبت کیوں آئی۔
رمیز راجہ کا اصل کام کیا،کر پائیں گے؟
عامر سہیل نے رمیز راجہ کے چیئرمین بننے کے حوالہ سے کہا ہے کہ پہلے اسکول،کالج،ڈیپارٹمنٹ،کلب کرکٹ فعال تھی،اوپر کوئی نان ٹیکنیکل بھی آجاتا تھا تو کام ہوجاتا تھا۔،رمیز راجہ سے یہ توقع کرتا ہوں کہ وہ سب سمجھتے ہیں،جنہوں نے کرکٹ کا بیڑا غرق کیا،ان سے چھٹکارا ہوگا۔اسکول،کالجزکرکٹ کو فعال کرنا ہوگا۔پرائیویٹ کالجز کو کوٹہ دینا ہوگا۔کلب کرکٹ کوفعال کرنا ہوگا۔پی سی بی کے پاس اپنا گرائونڈ ہی نہیں ہے۔کلبزکو بول رہے ہیں کہ اپنا گرائونڈ لائیں۔رمیزکلب کرکٹ کو فروغ دیں۔ریجن کی سیاست ختم کریں۔بڑا ہی مشکک کام ہوگا۔رمیز سمجھتے ہیں۔امید ہے کہ کام کریں گے۔