عمران خان خان کے پاس منہ اٹھاکرجانے کی ضروت نہیں،مصباح اور وقار اب کرکٹ کے قریب بھی نہ پھٹکیں،عامر سہیل،اہم انکشافات
رپورٹ و تجزیہ : عمران عثمانی
عمران خان صرف کرکٹ کے وزیر اعظم نہیں ہیں۔وہ اسپورٹس کے وزیر اعظم بھی ہیں۔اس کے لئے منہ اٹھاکر ان کے پاس جاکر نہیں بتانی چاہئیں بلکہ طریقہ سے بات کری چاہئے،یہ نہ ہو جیسا کہ پہلے ہوا۔جیسا کہ کچھ لڑکے چلے گئے اور جاکر وزیر اعظم کی بات چیلجن کردی۔کہدیا کہ یہ نیا کرکٹ سسٹم ٹھیک نہیں ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔عمران خان کو کیا کہنا ہے۔عامر سہیل نے سیدھے اور صاف لفظوں میں بول دیا ہے۔مصباح اور وقار کو ایک وارننگ دینے کی ضرورت کی بات کی ہے۔بھاگنے والوں پر کڑی تنقید کی ہے۔آگے بڑھنے سے قبل واضح ہوکہ معاملہ کیا ہے اور پاکستان کے سابق کپتان عامر سہیل کیا کہنا چاہتے ہیں اور کیا درد رکھتے ہیں۔پہلے پس منظر واضح ہوتا چلے۔
عمران خان کے حکم پر ڈومیسٹک کرکٹ تبدیل،واویلا،شکایتیں
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے ملکی باگ دوڑ سنبھالنے کے فوری بعد پاکستان کرکٹ بورڈ سے کہا تھا کہ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ سسٹم ختم کریں۔ملک میں سٹی بنیاد پرکرکٹ کھلائیں۔یہ آسٹریلوی طرز کا ہے۔2018 میں اس وقت کے پی سی بی چیئرمین احسان مانی اور ان کی ٹیم نے سسٹم تبدیل کیا تو پورے ملک میں شور اٹھا۔جاوید میاں داد اور عبد القادر مرحوم سمیت اہم شخصیات نے مخالفت کی۔عمران خان نے ایک نہیں سنی۔نتیجہ میں اظہر،علی،محمد حفیظ اور مصباح الحق یہ مقدمہ لے کر عمران خان کے پاس پہنچ گئے مگر انہیں بھی ناکامی ہوئی۔ملکی کرکٹ سسٹم کی تبدیلی کا تیسرا سال چل رہا ہے۔نتائج ویسے نہیں ملے۔
عمران خان پر کرکٹ نہیں،تمام اسپورٹس کی ذمہ داری
ورلڈ کپ 1992 ٹیم کے اوپنر،اہم رکن عامر سہیل نے اس پر پہلے بھی بات کی ہے۔اس بار انہوں نے کھل کر جملے بولے ہیں۔رمیز راجہ کے پی سی بی چیئرمین بننے،ورلڈ ٹی 20 سلیکشن اور ملکی کرکٹ چیلجنز کے موضوعات پر بات کر رہے تھے۔عامر سہیل نے کہا کہ نیا سسٹم 3 سال سے ناکام جارہا ہے۔نتائج نہیں ملے۔کام کے لوگ نہیں ملے۔کرکٹ چلانے کا نہیں علم۔یہ باتیں رمیز کو بتانے کی ضرورت ہے اور ان کو علم ہے۔آپ کو جب علم ہے کہ یہ نیا سسٹم درست نہیں چل رہا،اب جس طرح کچھ لڑکے پرائم منسٹر آفس چلے گئے،انہوں نے عمران خان کو کہدیا کہ یہ سسٹم ٹھیک نہیں ہے۔یہ نہیں چل سکتا۔اس طرح کہنا درست نہیں ہے۔ہم بڑے مسند پر موجود کسی فرد کی عزت نفس کی توہین نہیں کرسکتے۔آخر عمران خان کا برسوں سے ایک موقف رہا ہے۔وہ ڈیپارٹمنل کرکٹ کے مخالف رہے ہیں۔اب وہ اپنے ہی موقف سے کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔اب عمران خان پورے پاکستان کے اسپورٹس کے ہیڈ بھی ہیں۔عمران خان ان کے بھی ذمہ دار ہیں۔عمران خان کو سوچنا چاہئے تھا کہ یہ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کیوجہ سے ہی دوسری کھیلوں کو دیکھتے تھے۔کرکٹ کمائی سے ہی انہوں نے دیگراسپورٹس کےلوگ بھرتی کر رکھے تھے۔وہ سب کرکٹ کی وجہ سے چل رہے تھے۔اب وہ بھی چیلنج ہوگئے ۔
عمران خان کے پاس جا کر کیا بتانے کی ضرورت
عامر سہیل کہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس جاکر کچھ اور انداز میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔لیفٹ ہینڈ عامر سہیل جارح مزاج پلیئر رہے ہیں۔بڑی پیاری بات کر گئے ہیں ۔کہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس جائیں اورا نہیں بتائیں کہ یہ سسٹم چلاتے ہوئے اڑھائی سال ہوگئے ہیں۔ان میں یہ نئے پرابلمز آگئے۔اس کے لئے کچھ ٹیموں کے اضافہ کی ضرورت ہے۔سسٹم آپ کا چلے گا،یہ مسائل بھی کھڑے ہیں۔ٹیموں کی تعداد بڑھانے کے لئے یہ اور یہ،پھر وہ اور یہ کرنا پڑے گا۔رمیز راجہ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ عمران خان کو درست انداز میں پکچر پیش کرسکتے ہیں۔انہیں سمجھاسکتے ہیں۔اب 6 ٹیموں میں کتنے لڑکے کھلاسکتے ہو۔ایک انڈر 19پلیئر ریجنل ٹیم میں سلیکٹ نہیں ہوسکا۔ضائع ہوگا۔واپس پڑھائ پر جائے گا یا عمان ،یو اے ای اور امریکا جائے گا۔پھر ہم ادھر اسھر دیکھیں گے۔میری تجویز ہے کہ رمیز راجہ عمران خان کے پاس جائیں اور انہیں جاکر یہ حالات بتائیں۔
رمیز کی ناکامی،تمام کرکٹرز کی ناکامی،کیا ہاتھ سے جائے گا
عامر سہیل نے انکشاف کیا ہے کہ جنرل توقیر ضیا کے دور میں رمیز راجہ جب پی سی بی چیف ایگزیکٹو تھے تو اس زمانے میں کرکٹرز کی اخلاقی ٹریننگ بھی ہوتی تھی۔سب کچطھ بتایاجاتا تھا۔اس کے بعد شہر یار آئے۔انہوں نے اکیڈمی بھی بند کردی۔بیادی طور پر یہ ساری چیزیں اکٹھی کرنی ہیں۔بنیاد سے کرکٹ بہتر کرنا ہوگا۔رمیز راجہ کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا کہ یہ چوتھے کرکٹر ہیں جو چیئرمین پی سی بی آئے ہیں۔اب ان پر دبائو یہ ہے کہ وہ کامیاب ہوں۔باقی تمام کرکٹرز پر بھی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ رمیز راجہ کامیاب ہوں۔یہاں اگر رمیز راجہ ناکام ہوتے ہیں تو پھر بھول جائیں کہ آئندہ سے کوئی کرکٹر اس پوسٹ پر پہنچ سکے۔مکمل درست فیصلے کرنے ہونگے۔ہیومن ریسورس چاہئے۔
مصباح اور وقار اب پاکستان کرکٹ کے نزدیک بھی نہ آئیں
مصباح الحق اور وقار یونس سے اگر استعفیٰ لینا پڑا تو طریقہ ٹھیک ہونا چاہئے تھا۔پھر یہ وقت مناسب نہیں تھا۔یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے درست کام نہیں کیا۔ان کو فارغ کرنے سے پہلے ان لوگوں کو بھی کٹہرے میں لانا چاہئے تھا کہ ان کو یہ ذمہ داری دی کس نے تھی۔کیوں ان کو رکھا تھا۔جو رپورٹس آرہی ہیں۔میں اس پر تبصرہ ہی کرسکتا ہوں۔مجبوری میں استعفیٰ لیا گیا،غلط وقت لیا گیا۔جن لوگوں نے ان کو سلیکٹ کیا تھا ان سے پوچھیں کہ وہ بتائیں کیوں رکھا۔نئی منیجمنٹ کو اب یہ سوچ لینا چاہئے کہ یہ ایسے لوگوں کو نکال کر بول دیں کہ آج کے بعد پاکستان کرکٹ کے نزدیک بھی نہیں آنا چاہئے۔اگر وہ خود جارہے ہیں تو انہیں یہ الفاظ بول دیں کہ اچھے وقتوں کی چیزیں ساری ہڑپ کرلیں۔کام کے وقت کیا چھوڑ کر جارہے ہو،انہیں بول دینا ہوگا کہ دوبارہ پاکستان کرکٹ کے نزدیک بھی نہ پھٹکیں۔آئندہ آنے والا پھر سوچ کر آئے گا۔دوسری صورت میں دیہاڑی پر بندے رکھ لو۔وہ بھی آواز لگادیں گے کہ اچھا اچھا۔شاباش،شاباش،یہاں بال رکھنا ہے۔یہاں سپن کرنا ہے۔
عامر سہیل بھی پاکستان کے سب سے بڑے ہیرو
یہاں پڑھنے والوں کو یہ بتانا چاہوں گا کہ عامر سہیل پاکستان کے بہت بڑے کرکٹر رہے ہیں۔ورلڈ کپ 1992 کے وہ بھی ہیرو ہیں۔پاکستان جب پٹری سےا تر گیا تھا۔اگر،مگر والا کیس شروع تھا تو پٹری پرچڑھانے اور پاکستان کو لائن پر لگانے میں عامر سہیل کا بنیادی کردار تھا۔11 مارچ 1992کو انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف 76 رنزکی اہم ترین اننگ کھیلی تھی۔پاکستان وہ میچ ہارجاتا تو کہانی اس روز ہی تمام ہوجاتی۔عامر سہیل کی آواز اور رائے کہ بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔