بیس ماہ سے ناکام کھلاڑی کو کپتان بنانے کی تیاری،انضمام سمیت سب قصور وار،اعدادوشمار پیش
تحقیق و تحریر : عمران عثمانی
پاکستان کرکٹ بورڈ افغانستان کے خلاف ایک روزہ سیریز کے لئے ٹیم کا اعلان کرنے والا ہے.یہ بات تو پرانی ہوئی کہ پاکستان کے 4 کرکٹرز نے کھیلنے سے معذرت کی ہے .یہ بھی بات اب نئی نہیں رہی کہ بابر اعظم،رضوان،شاہین اورحسن علی اسکواڈ میں نہیں ہونگے،جیسا کہ کرک سین نے گزشتہ روز اپنی تفصیلی خبر میں اس کا انکشاف کردیا تھا،یہاں ایک نئے ایشو کا ذکر کرتے ہیں.جمعہ کی صبح سے یہ تبصرے ہیں کہ شاداب خان کپتان ہونگے.افغانستان کے خلاف سیریز اگلے ماہ کے پہلے ہفتہ میں ہوگی.میچزسری لنکا میں ہونگے.چونکہ سلیکٹرز نے شاداب خان کو نائب کپتان بنایا ہوا ہے،اس لئے شاید اب ضروری ہوگیا ہے کہ وہی کپتان ہونگے.ایسا کرنا منطقی بات ہے لیکن کیا یہ میرٹ کے مطابق ہوگا.کیا یہ سب درست ہوگا.
شاداب خان کی اوور آل پرفارمنس
شاداب خان پاکستان کے کرکٹ ریڈار پر 2017میں بطور انٹر نیشنل کھلاڑی نمودار ہوئے.آپ ہمارے سلیکٹرز کا کمال دیکھیں.25 مارچ 2017 کو شاداب خان نے ٹی 20 انٹر نیشنل ڈیبیو ویسٹ انڈیز کے خلاف کیا.12دن بعد 6 اپریل 2017کو انہیں ایک روزہ میچ کی کیپ مل گئی.اسی ماہ کے آخر میں 29اپریل 2017 کو ویسٹ انڈیز کے خلاف ہی ٹیسٹ کیپ مل گئی.پہلے آپ سلیکٹرز کو دیکھیں کہ انہوں نے شاداب خان کو تینوں فارمیٹ کے لئے منتخب کیا.پھر کپتان اور کوچز کو دیکھیں کہ انہوں نے اوپر تلے ڈیبیو کروادیا.یہ لیگ اسپنر ہیں ،خالی اسنر ہیں،کیا ہیں؟جو بھی ہیں مگر کہلاتے بڑے لیگ اسپنر ہیں.اب تک انہیں 6 ٹیسٹ میچزکھلائے گئے.کیا مطلب ہوا کہ ڈیبیو کے 5 ویں سال تک صرف 6 ٹیسٹ میچز.گویا وہ اس کے اہل ہی نہیں سمجھے گئے.ان کی کارکردگی یہ رہی ہے کہ 33 کی اوسط سے 300 اسکور ہیں اور 36 کی ایوریج سے14 وکٹیں ہیں.یہ آل رائونڈر جانے جاتے ہیں اور ایک روزہ کرکٹ کا عالم یہ ہے کہ 48میچزمیں محض 34 کی اوسط سے صرف434 اسکور ہی بناسکے ہیں.کوئی سنچری نہیں ہے اور صرف 3 ہاف سنچریز ہیں.32 کی اوسط سےصرف 62 وکٹیں ہیں،ایک بار بھی میچ میں 5 کھلاڑی آئوٹ نہیں کرسکے.
شاداب ٹی 20 میں کامیاب یا ناکام
شاداب خان کو ٹی 20 کا بہترین کھلاڑی کہا جاتا ہے.یہ نام نہاد ہے یا حقیقی.کارکردگی دیکھ لیں.53 ٹی 20 انٹرنیشنل میچز میں صرف اور صرف 15 کی اوسط سے 226 اسکور بناسکے ہیں،کوئی ہاف سنچری نہیں.سنچری تو بڑی دور کی بات ہے،اس نام نہاد آل رائونڈر کی اگلی پرفارمنس یہ ہے کہ 53 میچزمیں 58 وکٹیں.مطلب ایک میچ میں ایک وکٹ.ایوریج23 کی،اکانومی ریٹ 8 کے وریب ہے.اب یہ ایسی کارکردگی کے عالم میں چند ماہ قبل قومی ٹیم کے نائب کپتان بنائے گئے.کوئی دور بین ہے یا ایسا آلہ کہ اس پرفارمنس کو کسی اور اعتبار سے دیکھا جاسکے.ابھی بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی.تھوڑا اور دیکھتے ہیں.
گزشتہ 20 ماہ سے شاداب خان تینوں فارمیٹ میں فلاپ
یکم جنوری 2020 سے اب تک قریب 20 ماہ میں ایک ٹیسٹ کھیلا ہے.اس میں 60 رنز ہیں اور 2 وکٹیں ہیں.5 ایک روزہ میچز میں 97 اسکور بنبائے ہیں اور صرف 3 وکٹیں لی ہیں.15 ٹی 20 انٹر نیشنل میچزمیں صرف 104 اسکور ہیں اور 12 وکٹیں ہیں.یہ ہے وہ کارکردگی جس کی بنیاد پر شاداب خان قومی ٹیم میں کھیل رہے ہیں اور نائب کپتان بنائے گئے ہیں اور اب ایک روزہ کرکٹ کے کپتان بنائے جارہے ہیں.پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا تاریک ترین لمحہ ہوگا ،اب جب ایسا ہوگا کیونکہ ایسے نام نہاد آل رائونڈرز کھلا کھلا کر حقیقی پلیئرز کا حق مارا گیا،اس میں موجودہ سلیکٹرز کے ساتھ ساتھ سابق چیف سلیکٹرز وکپتان شامل ہیں،ابھی کل کی بات ہے .انضمام الحق بڑے دکھ اور درد سے سلیکٹرز کو ایک سبق دے رہے تھے کہ ٹی 20 پرفامنس پر پلیئرز کو فوری سلیکٹ مت کریں اور پھر انہیں ٹیسٹ اسکواڈ کا حصہ مت بنائیں،انہوں نے حالیہ سلیکشن جیسا کہ عبد اللہ شفیق اور شاہ نواز دھانی ہیں،ان کی مثال دی.دونوں اس وقت ویسٹ انڈیز میں موجود ہیں اور بنچ پر بیٹھے ہیں.انضمام الحق نے اور کیا کیا کہا،اس کے لئے یہاں کلک کریں .یہ گزشتہ رات کی بات ہے.
ویسٹ انڈیز سے شکست،انضمام الحق کی پرانی یادیں تازہ ،کپتان اور کوچ سے کیا کہا
انضمام الحق سے کرک سین کا سوال
آج کے دنوں میں اچھی باتیں کرنا آسان ہے،یہ شاداب خان کی سلیکشن آپ نے بطور چیف سلیکٹر 2017 میں کی.آپ پاکستان کے پاور فل چیف سلیکٹر رہے ہیں،آپ نے 2016 سے 2019 کے مکمل 3 سال بلکہ اس سے بھی 6 ماہ زائد گزارے ہیں.آپ نے بھی یہ سلیکشن پی ایس ایل جو کہ ٹی 20 لیگ ہے.اس کی بنیاد پر کی تھی.پھر ایک ہی سیریز میں تینوں فارمیٹ کھلائے گئے.اس وقت شاداب خان کی بیک پرفارمنس کیا تھی؟ڈومیسٹک کرکٹ کا کیا تجربہ تھا؟کس بنیاد پر ٹیسٹ کھلانے کا ناکام تجربہ کیا گیا.کس بنیاد پر وہ ٹی 20 انٹر نیشنل اور ایک روزہ کرکٹ کھیلتے رہے.15 کی اوسط سے ٹی 20کی بیٹنگ؟ ایک روزہ کرکٹ کی مذاق اڑوانے والی پرفارمنس؟آخر آپ نے سلیکشن کے کیا پیمانے طے کئے.اس وقت بھی آپ کے دور کے کپتان،کوچز کسی نہ کسی شکل میں ٹیم میں ہیں اور آ پ کے پیمانے کو وہ آگے بڑھارہے ہیں.یہ سوال موجودہ چیف سلیکٹر محمد وسیم سے نہیں ،پہلے اپنے آپ سے کریں کہ شاداب خان کیا ہیں؟گزشتہ20 ماہ میں ایک ٹیسٹ،5 ایک روزہ میچز ،15 ٹی 20میچز.یہ کل ملا کر 21 میچز بنتے ہیں.ان میں 261 اسکور وہ بناسکے ہیں اور 17 وکٹیں لے سکے ہیں.اسی پر وہ نائب کپتان بنائے گئے اور اسی پر وہ اب عبوری کپتان بنیں گے اور اسی پر وہ آنے والا ورلڈ ٹی 20 کپ کھیلیں گے.
آرام،وقفہ،کھیل،فیصلہ پلیئرز کو نہیں بورڈ کو کرنا ہے
پاکستان کرکٹ بورڈ ،ٹیم منیجمنٹ اور کپتان سب قصور وار ہیں،نئے لڑکوں کو ان کے مقام پر آزماتے نہیں ہیں.ڈومیسٹک ٹی 20 لیگ پر سلیکشن ہوتی ہے اور ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل ہوجاتے ہیں.ٹیسٹ پلیئرز کو ایک روزہ کرکٹ اور ایک روزہ کرکٹ والے کو ٹی 20 اور ٹی 20 والے کو ون ڈے کرکٹ کھلادی جاتی ہے اور پھر مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے ناکام تجربات کے بعد پھر میرٹ پر موجود کسی نئے پلیئر کو شکست کے ڈر سے موقع دیا نہیں جاتا ہے.کورونا کے بعد ساری دنیا میں پلیئرز کو آرام دینے کی روایت قائم ہوئی ہے لیکن ہمارے کھلاڑی زمبابوے جیسی سیریز میں آرام کو تیار نہیں تھے اور اب افغانستان کے خلاف 4 پلیئرز نے آرام مانگا ہے.کون سے کھلاڑی نے کب آرام کرنا ہے اور کب کھیلنا ہے.اس کا فیصلہ پلیئرز نے نہیں بلکہ بورڈ اور ٹیم منیجمنٹ نے کرنا ہے.گزشتہ سال ایجز بول ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف انگلینڈ نے اپنے تجربہ کار بائولر سٹورٹ براڈ کا باہر بٹھایا تھا.وہ میڈیا پر آکر برسے تھے لیکن انگلش ٹیم منیجمنٹ نے اپنا بنایا ہوا رول نہیں توڑا.بعد میں وہ وقفہ وقفہ سے ہی کھلائے گئے.یہاں سب کو اپنی سیٹ جاتی محسوس ہوتی ہے پھر کمزور ٹیم کے خلاف بھی جگہ نہیں چھوڑی جاتی.آخر 10 ماہ قید والی لائف گزارنے کے بعد آرام تو ضروری تھا نہ اب جب تھکاوٹ اور جسم نے ساتھ دینے سے انکار کیا ہے تو آرام مانگنا یا د آگیا ہے.
سرفراز احمد کیوں نہیں
کرک سین نے اپنی گزشتہ روز کی تحریر میں واضح لکھا تھا کہ سرفراز احمد ٹیم کے ساتھ موجود ہیں.15 ماہ سے سفر کر رہے ہیں.کھیلتے بھی نہیں ہیں،سلیکٹ بھی نہیں کئے جاتے تو افغانستان کے خلاف ون ڈے سیریز میں انہیں کپتان بنادیا جائے.ایک تو تجربہ کار ہیں.دوسرا ردھم پکڑسکتے ہیں اور تیسرا کسی مشکل وقت میں کپتانی سنبھال سکتے ہیں .چوتھا افغانستان کیتیم نہایت خطرناک ہے،اس کے خلاف دبائو برداشت کرسکتے ہیں .پانچواں وہ ویسٹ انڈیز سے واپس آکر ٹیم کی کمان سنبھال سکتے ہیں لیکن شاید پی سی بی کے اپنے ظابطے ہیں.
یہ کہانی بھی اسی موضوع سے جڑی ہے
افغانستان سیریز،بابر اعظم سمیت کئی باہر،پاکستان کی نئی ٹیم